دھوپ سے چھاؤں میں

دھوپ سے چھاؤں میں

میں گھر کی بالکونی میں بیٹھا دن بھر دکان پر آنے والے بچوں کو دیکھتا رہتا تھا۔ ادھر حماد اپنے ابو کے کندھے پر سوار دکان میں داخل ہوا اور آئسکریم کھانے کی ضد کرنے لگا۔ پہلے تو اس کے ابو نے بہت بہلانے کی کوشش کی لیکن بالآخر اس کی ضد کے سامنے ہار مان گئے اور اس کو آئسکریم دلوانی پڑی۔ ابھی حماد دکان سے نکلا ہی تھا کہ ظہیر اپنے والد کا ہاتھ تھامے دکان میں گھستا چلا گیا اور بسکٹوں اور پاپڑوں کے پیکٹ اٹھا کر جیبوں میں ٹھونسنے لگا اس کے ابو نے خاموشی سے اس کے پیسے ادا کیے اور چلتے بنے۔

یہ مناظر دیکھ کر میرا بھی جی للچایا کہ آئسکریم کھائی جائے یا پاپڑوں کے کرارے ذائقے سے لطف اندوز ہو جائے۔ لیکن اگلے ہی لمحے ایک اور خیال نے ان سب خواہشات پر پانی پھیر دیا۔ کیوں کہ خواہشات پوری کرنے والی عظیم ہستی جسے لوگ والد کہہ کر پکارتے ہیں ہماری زندگی سے کب کی نکل چکی تھی اور ان کی جگہ کبھی نہ پر ہونے والا بڑا خلا تھا۔ ہاں وہی والد جو اپنے بچوں کو سونے کا نوالہ کھلاتا ہے اور شیر کی نگاہ رکھتا ہے۔ نہ تو ہمیں سونے کا نوالہ میسر تھا نہ ہی کوئی شیر کی نگاہ۔ وہی باپ جو کڑی دھوپ میں گھنی چھاؤں کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور کڑاکے کی سردی میں گرم شال کی۔ ہماری چھاؤں بھی چھن چکی تھی اور زمانے کے سرد تھپیڑوں سے بچنے کا کوئی ذریعہ بھی نہ تھا۔

اب وہی کچھ میسر تھا جو ایک باپ کے جانے کے بعد عموما میسر آتا ہے۔ شیر کی نگاہ کے بجائے اب ہم پر دم توڑتے انسان پر گدھ کی سی نگاہیں رکھی جاتی تھیں۔ سونے کے نوالے کے بجائے تلچھٹ اور باقی ماندہ ہی زہر مار کرنا پڑتا تھا۔ گویا شاعر نے بالکل بجا کہا تھا۔

یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے رنج وغم

سنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے۔

تحریر: عبدالواجد ہزاروی  ( شریک کلیۃ الفنون ملٹی میڈیا )

Tags