Blog | Funoonika
Funoonika

Funoonika & Jamia-Tur-Rasheed

شیطان کے بھائی

شیطان کے بھائی

’بابا! یہ گاڑی نہیں چاہیے، مجھے۔‘‘
’’کیوں بیٹا! ابھی چھ ماہ ہی تو ہوئے ہیں، اسے خریدے ہوئے!!‘‘
’’مارکیٹ میں اب نیا ماڈل آ چکا ہے، اس سے کہیں بہتر۔ میرے دوست بھی وہی خرید رہے ہیں، اس لیے مجھے بھی خریدنا ہی ہو گی ،بابا جانی!‘‘ ’’چلیں، ٹھیک بیٹا! میں کچھ کرتا ہوں، تمہیں تو ناراض نہیں کر سکتا ناں! آخر تم میرے اکلوتے بچے ہو۔‘‘ ٭

’’حاتم کے ابو! میں نے آپ کو بتایا تھا، میرے بھائی کی شادی ہے، سب سے چھوٹے بھائی کی۔‘‘ ’’خدا خیر کرے، آج پھر کیا مطالبہ ہے، افسانہ کی ماں؟‘‘
’’بس، وہ میں نے کہا، باقی سب تو ٹھیک ہے، ذرااپنے اور بچوں کے لیے نئے کپڑے سلوانے تھے۔‘‘ ’’ابھی ایک ماہ پہلے ہی تو عید گزری ہے، سب بچوں نے نئے سوٹ ہی پہنے تھے!‘‘ ’’کیسی کنجوسی کی باتیں کرتے ہیں آپ۔ شادی روز روز تھوڑی ہوتی ہے ۔ اور کتنی سبکی ہو گی ہماری، اگر ہم ان پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہوئے؟‘‘

’’ٹھیک ہے ، ان دنوں فیکٹری کے حالات کچھ اچھے تو نہیں، مگر تمہاری باتیں کون ٹالے؟‘‘ ٭

’’پپو یار ! چل میرے ساتھ، آج ذرا نئے جوتے خریدنے کا موڈ ہو رہا ہے۔‘‘ ’’مانی! ارے نفسیاتی ہے کیا؟ ہر دوسرے ماہ تجھے نیا جوتا خریدنے کی سوجھتی ہے۔‘‘ ’’ارے، تجھے پتا نہیں، میں بیٹا کس کا ہوں؟ شہر یار صاحب، گورنر کے پرسنل سیکرٹری۔ اور یہ میرا لائف اسٹائل ہے، تمہیں کیا اعتراض؟‘‘ ٭

’’شاہ زیب صاحب، مزا آگیا یار تمہارے بیٹے کی شادی میں شرکت کر کے!‘‘ ’’تو اور کیا نہ آتا مزا، پتا ہے میں نے اس کے لیے کتنی کوشش کی ہے؟؟‘‘ ’’کیا؟‘‘

’’آپ کو پتا ہے مجھے پچھلے سال اپنے فروٹ کے بزنس میں اچھا خاصا نقصان ہو گیا تھا، مگر اپنے لاڈلے کی شادی بھی تو دھوم دھام سے کرنی تھی۔ تو میں نے یہی بہتر سمجھا کہ یہ لاس واس تو ہوتے ہی رہتے ہیں، بینک سے قرض لے کر یہ موقع تو یاد گار طریقے سے نبھاؤں۔ اور تو یہ سن کر حیران ہو گا شاکرالدین! کہ میں نے تیرے بھتیجے کی خاطر پورا دو کروڑ روپیہ قرض لیا!!‘‘ ٭

’’ناصر! آج میرا لنگوٹیا یار آ رہا ہے، دبئی سے۔‘‘ ’’جی سر! ان کو ہم ایک یاد گار ٹریٹ دیں گے، یاد رکھیںگے سر آپ کے دوست ان شاء اللہ!‘‘ ’’تو پھر تم سب سمجھتے ہی ہو ناں؟‘‘

جی سر! آٹھ ڈشیں بنوا لیں گے اور ہر چیز برانڈڈ ہوگی سر!‘‘ ٭

’’یار! جب تم جاتے ہو تو یہ آفس کی لائٹیں، پنکھے، اے سی وغیرہ کھلا ہی چھوڑ جاتے ہو؟!‘‘ ’’چھوڑ یار ، یہ کون سی ہمارے بابا کے خرچ سے چلتی ہیں۔ چلنے دیں، سرکاری مال ہے۔‘‘ ٭

’’یار سنا ہے یہاں شہر کی سب سے بڑی کوٹھی تعمیرہو رہی ہے؟‘‘ ’’تو اور کیا؟ پتا ہے وہ کیسی ہو گی؟‘‘ ’’سو کنال رقبے میں بنے گی۔ چار بیڈر ومز، سوئمنگ پول، بیڈ منٹن پارک ، پارکنگ لاٹ، دو طرف پائیں باغ، نہایت نفیس اور امپورٹد فرنیچر کے ساتھ ایک نہایت عالی شان فرنشڈ گھر ہوگا وہ۔ اور ڈبل اسٹوری ہو گی یہ!‘‘ ’’یہ اسی خاتون کی نہیں، جو بیرون ملک رہتی ہے اور یہاں کی سب سے بڑی بزنس کمپنی کی مالک ہے؟‘‘ ’’ہاں! اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ہے بالکل اکیلی، ایک مجرد خاتون!‘‘ ٭

’’تمہیں آخر یہ پلاٹ پر پلاٹ خریدنے کی کیا پڑی رہتی ہے؟؟‘‘ ’’تو پھر تمہارے جیسے’’ نصیحت پر نصیحت ‘‘کرنے والے دوست ہی خریدتا رہا کروں؟ بول کہنا کیا چاہتا ہے؟؟‘‘ ’’مجھے یہ سمجھ نہیں آتی، تو خرید کر کر ے گا کیا، ان کو؟ ایک ہی بیٹا ہے تمہارا۔ ‘‘

’’ارے سمجھدار کہیں کے! تو پھر مجھے بڑی گاڑیوں اور عہدوں والے سیلوٹ کیسے کریں گے؟ یہ بڑے بڑے فون مجھے کہاں سے آئیں گے؟ اور یہ عہدوں والے جو ہر میٹنگ میں مجھے اپنے ساتھ چپکائے پھرتے ہیں، یہ سب کیسے ہوگا؟؟ یہ سب کچھ اسی لیے ہے ان کو پتا ہے کہ پورے صوبے میں سب سے بڑی جائیداد کا مالک میں ہوں۔سمجھا کرو میرے نین تارے!‘‘ ٭

قارئین! اس آیت مبارکہ کی روشنی میں آپ کن لوگوں میں شامل ہونا پسند ہونا کریں گے؟؟’’یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا نا شکرا ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیۃ:27)

 

از قلم : مولانا عمر فاروق راشد

0 Comments

Leave a Comment