سندھ اسمبلی میں گزشتہ روز ایک بل پیش کیا گیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ 18 سال سے کم عمر افراد کا قبول اسلام معتبر نہیں ہوگا اور اسلام قبول کروانے والے کو سزا اور جرمانہ ہوگاتو اس سے مرکزی نقطہ نظر یہی ثابت ہوتا ہے کہ بلوغت کی عمر 18 برس ہے حالانکہ شریعت نے بلوغت کی عمر کی جو آخری حد متعین کی ہے وہ 15 برس ہے وہ بھی اس صورت میں جب کہ اس سے قبل بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوںاگر قانون سازوں کا یہی اصرار ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا اسلام قبول نہیں ہے تو پھر ان صحابہ کرام کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جنہوں نے اس عمر سے قبل اسلام قبول کیا تھا۔ کم عمری میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرام میں شیر خدا حضرت علی نے 10 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص نے 16 سال کی عمر میں، معاذ بن عمرو بن الجموح 12 یا 13 برس کی عمر میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو جہنم رسید کیا۔معاذ بن حارث جو ابو جہل کو قتل کرنے میں بھی شامل تھے 12 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا حضرت زید بن ثابت نے 11 سال کی عمر میں عمیر بن سعد نے 10 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت ابو سعید خدری13 برس کی عمر میں غزوہ احد میں شریک ہوئے۔حضرت انس بن مالک 8 برس کی عمر میں آپ ﷺ کے خادم خاص بنے۔ کس قدر حیرت بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا دستور تو اسلامی احکام کے مطابق قانون سازی کی ضمانت دیتا ہے مگر قانون ساز اس میثاق کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کے تحفظ اور پاس داری کا انہوں نے خود حلف بھی اٹھایا ہےہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام آخری دین ہے اور نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری نبی اور پیغمبر ہیں اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آے گا۔ لہذا امت محمدی میں شامل ہر مسلمان اسلام کا داعی ہےاوراسلام کی تبلیغ اس پر فرض ہے۔ ہر مسلمان کی کوشش یا کم از کم خواہش ہونی چاہیے کہ اس دار فانی میں موجودہر بنده مشرف بہ اسلام ہو جائے اور ہماری اخروی نجات کا ذریعہ بن جائے
0 Comments