Blog | Funoonika
Funoonika

Funoonika & Jamia-Tur-Rasheed

تاریخ جمہوریہ مصر

تاریخ جمہوریہ مصر

بر اعظم افریقا کے شمال مغرب اور بر اعظم ایشیا کے سنائی جزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلو میٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میں غزہ پٹی اور اسرائیل، مشرق میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر، جنوب میں سوڈان، مغرب میں لیبیا اور شمال میں بحیرہ روم ہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرف اردن، بحر احمر کے اس طرف سعودی عرب اور بحیرہ روم کے دوسری جانب یونان، ترکی اور قبرص ہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔

کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کو گہوارہ ثقافت بھی مانا جاتا ہے۔ قدیم مصر میں کتابے، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔ مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور تقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں اہرامات جیزہ، ابوالہول، ممفس، مصر، طیبہ اور وادی ملوک شامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق و ریسرچ میں سرگرداں نطر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میں یونانی قوم، فارس، قدیم روم، عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصر مسیحیت کا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔

16ویں صدی تا 20ویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں کے حکومت کی۔ شروع میں سلطنت عثمانیہ اور بعد میں سلطنت برطانیہ نے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادیکے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فرج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔ مصری انقلاب، 1952ء میں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگا دیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوی نہر سوئز کا قومیانہ کیا گیا اور شاہ فاروق اول کو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایک جمہوری ملک بن گیا۔ 1958ء میں جمہوریہ سوریہ کے ساتھ مل کر متحدہ عرب جمہوریہ کی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔ 20ویں صدی کے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں 1948ء میں اسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میں سوئز بحران، 1967ء میں روزہ جنگ اور 1973ء میں جنگ یوم کپور جیسے نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تک غزہ پٹی پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ اسرائیل کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کو دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومت بین صدارتی جمہوریہ ہے اور مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی ہیں۔ سیاست میں انہیں آمریت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مصر کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور سرکاری زبان عربی ہے۔ مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہ شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ نائیجیریا اور ایتھوپیا کے بعد بر اعظم افریقا کا تیسرا برا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی دریائے نیل کے کنارے بسی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہ صحرائے اعظم پر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میں قاہرہ، اسکندریہ اور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔

مصر کی خود مختار ریاست شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عالم اسلام میں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔ مصر کی معیشت مشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور 21ویں صدی میں اس کے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میں جنوبی افریقا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصر نائیجیریا کے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیش بن گیا۔

 

 

از قلم : محمد عمران (شریک کلیۃ الفنون سال 2021/22)

0 Comments

Leave a Comment