Blog | Funoonika
Funoonika

Funoonika & Jamia-Tur-Rasheed

معاشرہ کیسے ٹھیک ہوگا؟ ایک تازہ اور زندہ مثال

معاشرہ کیسے ٹھیک ہوگا؟
یہ ہمارے ایک دوست کا سچا اور تازہ واقعہ ہے۔ ان کی کسی اعلیٰ افسر سے ملاقات ہوئی۔ دورانِ ملاقات کسی کتاب کا ذکر آیا۔ یہ کتاب مہنگی بھی تھی اور نایاب بھی۔ ہمارے دوست نے اس سخت گیر اعلیٰ افسر سے کہا کہ میں عنقریب آپ کو یہ کتاب بھجوادوں گا۔ ایک اہم ترین موضوع پر 45 منٹ کی میٹنگ تھی۔ میٹنگ ختم ہوگئی۔ میرے دوست نے گھر آکر کتاب کی تلاش شروع کردی۔ رات 11 بجے تک کتاب مل گئی۔ انہوں نے کتاب پیک کی اور اگلی صبح 9 بجے TCS کے ذریعے اس اعلیٰ افسر کو بھجوادی۔ اسی دن شام 5 بجے کتاب اس کی ٹیبل پر تھی۔وہ سخت گیر اور تندخو مزاج اعلیٰ افسر ہمارے اس مولوی نما دوست کی وعدہ وفائی سے بہت ہی زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ اعلیٰ افسر مولوی، داڑھی، پگڑی اور ٹوپی والوں سے بہت خار کھاتے تھے۔ دینی طبقے کو بالکل پسند نہ کرتے تھے، لیکن ہمارے اس مولوی دوست کی ایک ادا اور وعدے کی بروقت تکمیل نے ان کی بیسیوں غلط فہمیاں دور کردیں۔ ان کو آج پتا چلا کہ مولوی اچھے ہوتے ہیں۔ یہ وفادار ہوتے ہیں۔ یہ آدابِ معاشرت سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔یہ رہن سہن، رکھ رکھاﺅ، اٹھنے بیٹھنے کے تمام عمدہ طریقے نہ صرف جانتے ہیں، بلکہ عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے کردار سے ثابت کرتے ہیں۔ گفتار کے نہیں یہ کردار کے غازی ہوتے ہیں۔دو دن بعد اس اعلیٰ افسر نے ہمارے دوست کو فون کیا۔ پہلے بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر کھانے کی دعوت دے ڈالی۔ ان کی طرف سے کسی مولوی کو کھانے کی یہ پہلی باقاعدہ دعوت تھی۔ ہمارے دوست وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔ ایک منٹ بھی تاخیر نہیں کی۔ اعلیٰ افسر نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے پوچھا کہ آپ وعدے کے بھی پابند ہیں اور ٹائم کے بھی۔ اس قدر پابندی آج کے دور میں کون کرتا ہے؟ ہمارے مولوی دوست نے زمین ہموار دیکھتے ہوئے ذمہ داریاں اور وعدے پر کرنے پر ہائی ڈوز دینے کا فیصلہ کرلیا، چنانچہ انہوں نے کہا: ”بات دراصل یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارک میں ایفائے عہد کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔قرآن کی سورة المائدہ کی آیت نمبر ایک ہے: ترجمہ:”اے ایمان والو! اپنے وعہد کو پورا کرو۔“ اس موضوع پر اب چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت عبادہ ابن الصامتؓ سے مروی ہے آپﷺنے فرمایا: ”بولو تو سچی بات بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو۔“ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے آپﷺنے فرمایا: ”جب تم گفتگو کرو تو جھوٹ نہ بولو اور جب وعدہ کرو تو پورا کرو۔“حضرت عبادہ الصامتؓ سے وایت ہے آپﷺنے فرمایا: ”تم 6چیزوں کی ضمانت (عمل کرنے کی) لے لو، میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں گا: 1: بولو تو سچ بولو۔ 2: وعدہ کرو تو اسے پورا کرو۔ 3: امانت ادا کرو۔ 4: اپنی خواہشات کی حفاظت کرو۔ 5: اپنی نگاہیں پست رکھو۔ 6: اپنے ہاتھ کو بچاکر رکھو یعنی کسی کو تکلیف نہ دو۔“حضرت عبداللہ بن عامرؓ سے روایت ہے آپﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے۔ میری ماں نے مجھے بلایا اور کہا: ”لو لو، آﺅ! میں تمہیں ایک چیز دوں گی۔“ آپﷺنے اس کی والدہ سے دریافت کیا: ”کیا دوگی؟“ کہا: ”کھجور دوں گی۔“ آپﷺنے فرمایا: ”اگر تم اس کو کچھ نہ دوگی تو تم جھوٹوں میں لکھی جاﺅگی۔“ہمارے مولوی دوست کہتے ہیں کہ وہ اعلیٰ افسر پورے غور اور توجہ سے میری یہ ساری باتیں سن رہے تھے۔ آخر میں وہ بولے: ”جب ایسا ہے تو پھر ہم سب کیوں وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ کیوں حیلے بہانے بناتے ہیں؟ کیوں جھوٹ بولتے ہیں؟ کیوں خیانت کرتے ہیں؟ کیوں ٹائم کی پابندی نہیں کرتے ہیں؟“ ہمارے دوست نے کہا: ”بھائی! بات دراصل یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرا صحیح ہوجائے، لیکن خود اچھا مسلمان، اچھا انسان بننے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ خود ان سب اچھی باتوں پر عمل کرے۔ اگر ہر شخص یہ سوچ لے کہ کوئی اچھا بنے یا نہ بنے، لیکن میں ضرور مثالی انسان بنوں گا۔ میں لازمی دینی احکام پر عمل کروں گا۔ میں کبھی وعدہ خلافی نہیں کروں گا تو پورا معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔
از قلم : مولانا انورغازی

Tags

0 Comments

Leave a Comment