مدارس اور زکوٰۃ کی روٹی

مدارس اور زکوٰۃ کی روٹی

آج کل ایک مقولے نے "اعلیٰ تعلیم یافتہ" افراد میں خصوصاً اور عوام میں عموماً بہت شہرت پائی ہے کہ 'مولوی بن گیا تو کھائے گا کہاں سے' یا 'مولوی تو زکوٰۃ کی روٹی پر پلتے ہیں' وغیرہ وغیرہ، تو چلیں آج اسکا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں.

اصحابِ صفہ :

وقت کا پہیہ الٹا گھمائیں اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے چلے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہجرت مدینہ کے بعد کچھ صحابہ کرام (رض) جنکا مسکن صفہ تھا جو حالات کے ستائے ہوئے، جن سے زندگی کی بنیادی ضروریات نے بھی منہ موڑا ہوا تھا لیکن وہ حقیقی طالب علم تھے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نور کی لڑی میں پرے ہوئے الفاظ اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا کرتے شاید کہ یہ مدرسے کی ابتداء تھی کیونکہ مدرسہ کسی عمارت کا محتاج نہیں، جہاں کہیں پر بھی کوئی پڑھنے اور پڑھانے والا جمع ہو جائیں وہ مدرسہ ہے، دوسری طرف جب انکی حالت زار پر نظر ڈالی جائے تو حضرت ابو ہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اکثر بے ہوش ہوکر گر جاتا لوگ سمجھتےکہ مرگی ہے مگر وہ بھوک کی شدت کا ستایا ہوتا، ان تمام قربانیوں کے بعد 5374 احادیث کا ذخیرہ جمع کیا جو امت کے لیے مشعل راہ بنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ صدقے کی مد میں آتا تو اصحاب صفہ کے لیے بھجوا دیا کرتے اسی طرح کسی کے پاس 'کبھی' کچھ ہوتا تو وہ دے جایا کرتا اس طرح انکا گزر بسر ہوتا، اس وقت کوئی انکو یہ نہیں کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں انکو کمانے کی ترغیب نہیں دیتے کیوں یہ لوگوں کی زکوٰۃ و صدقات پر انحصار کرتےہیں کیونکہ ان تمام جانثاروں نے اپنی تمام مصروفیات کو خیر باد کہہ کر اپنے آپ کو تعلیم کے لیے مختص کردیا تھا تاکہ امت کو عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاشرت غرض زندگی کے ہر شعبے میں احادیث مبارکہ کی کنجی پیش کرسکیں جو "صراط مستقیم" کے دروازے پر لگے قفل کو کھول سکے.

 

اب اگر یہ اصحابِ رسول اپنی ضروریات زندگی کے لیے بازار کا رخ کرتے تو بتائیے کہ دین کے کتنے احکام سے ہم محروم رہ جاتے اگرچہ رب کریم اپنا دین پہنچا کر رہتے مگر یہ دنیا اسباب کے گرد گھوم رہی ہے.

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

فتوحات و عروج کا دور:

خیر یہ دور گزرا پھر فتوحات کا دور آیا جس میں اللہ تعالیٰ نے مالی حالات مستحکم کیے اور دینی شعبوں میں کام کرنے والے تمام سرفروشوں کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا گیا اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ رح کے مسلک کے مطابق ان تمام امور پر اجرت نا جائز قرار پائی.


وقت کا پہیہ تیزی سے گزرتا گیا، مسلمانوں کے عروج کا زمانہ آیا.جب انسان کے گلے میں لٹکے مسلمان کے ٹیگ کے ساتھ ساتھ دین کی قدروقیمت بھی تھی، جب حکومتی سطح پر جبال العلم و العمل ہوا کرتے تھے، جب علماء کرام کی قدر و منزلت خلق خدا کے دل میں تھی، جب ملک کا بادشاہ خود چل کر علماء کرام کی مجالس میں شریک ہوا کرتا تھا، جب حکومتی سطح کے لوگوں سے فتاویٰ عالمگیری جیسے کام ہوا کرتے تھے. سپاہی ملک کی سرحدات پر اور علماء نظریاتی سرحدات پر پہرا دیا کرتے غرض یہ کہ دین کے جسم کو افواج اور روح کو علماء سنبھالے ہوتے، اس دور میں علماء کا کردار ایک رول ماڈل کی حیثیت سے جانا جاتا، اس وقت کوئی مائی کا لال یہ کہنے والا نہیں ہوتا تھا کہ مولوی زکوٰۃ پر پلتے ہیں وغیر ذلک کیونکہ انکا خرچہ سرکار اٹھاتی تھی اس لیے کہ انکا معاشرے میں بہت اہم کردار ہوتا تھا وجہ جو اوپر عرض کری کہ لوگ صرف مسلمان کا ٹیگ ڈالے نہیں گھومتے بلکہ دین کی سمجھ بوجھ بھی رکھتے تھے اور یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ کسی بھی معاشرے کے لیے علم و شعور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے.

علامہ اقبال رح نے مرد مومن پر کیا خوبصورت اشعار کہے ہیں

ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان!

قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

ہمسایۂ جِبریلِ امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قُرآن!

قُدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دُنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

جس سے جگَرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دِل جس سے دہَل جائیں، وہ طوفان

فطرت کا سرودِ اَزلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفَتِ سورۂ رحمٰن

 

مسلمانوں کا زوال :

"تلک الایام نداولھا بین الناس"، کچھ عرصہ گزرا کہ کثرت دنیا نے مسلمانوں کو تھپکی دے کر خواب غفلت میں بھیج دیا جسکا اغیار نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اس تھپکی میں مزید لوری کا اضافہ کر کے گہری نیند سلا کر ہم پر مسلط ہوگئے، ایک عرصے تک مسلمان غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور رہے اور باطل پورے زوروشور سے اسلام کے علمبرداروں پر وار کرتا رہا کہ کسی طرح انکو گرا کر مسلمانوں تکے حوصلے پست کیے جائیں مگر مجال ہےکہ اپنی جگہ سے بھی ہلا پایا ہوں، مسلسل جدوجہد میں جہاں قائداعظم، علامہ اقبال رح اور دیگر لوگوں نے کردار ادا کیا وہیں حضرت تھانوی رح، شبیر احمد عثمانی رح اور دیگر علماء کرام کا کردار بھی پیش پیش رہا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا، مسلمان اپنی غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر پھر سے آزادی کے ساتھ دین پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوگئے مگر یہ بات مغرب کے خارش زدہ گدھوں کو کہاں ہضم ہونا تھی، لہذا انہوں نے روح پر قبضہ کرنے کا پلان بنایا، ذہنی غلامی کے ہتھکنڈے تلاشے اور میڈیا کے ذریعے سے بہت سے سادہ لوح مسلمان ذہنی غلامی کا شکار ہوتے چلے گئے نتیجتا لبرلسم، روشن خیالی کو اپنا پیشوا ماننے والے سامنے آئے اس وقت ضرورت تھی اہل دین کی کہ وہ اس پر فتن دور میں باطل نظریات و عقائد کے خلاف کمر کس لیں جس کے لیے سخت محنت کی ضرورت تھی کیونکہ متاثرین کی تعداد بے شمار تھی اور وسائل بھی محدود تر تھے کیونکہ بیت المال کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا اور حکومتی خزانوں پر نقاب پوش لٹیروں نے قبضہ کر رکھا تھا اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے متاخرین احناف نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ دینی امور پر اجرت لینا جائز ہے اس لیے کہ پہلے بیت المال میں بھی جو لوگوں کے صدقات و زکوٰۃ جمع ہوتیں اس سے ہی ان حضرات کو وظائف دیے جاتے اب جب وہ سلسلہ ختم ہوا تو براہ راست کی اجازت دے دی گئی تاکہ دین محفوظ رہے ورنہ اگر یہ محافظین بشری تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر بازار کا رخ کرتے تو شاید کہ پاکستان جسکی بنیاد ہی "لا الہ الا اللہ" پر رکھی گئی وہ ڈھیر ہوجاتی، اس مقصد کے لیے مدارس قائم کیے گئے جہاں مسلمانوں کو صراط مستقیم کی تشریح سکھائی جائے اور انکی تربیت نبوی طریق پر کی جائے جسکے لیے ان حضرات کی ضرورت تھی جو اصحابِ صفہ کے نقش قدم پر تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کام میں جَڑ جائیں جس وجہ سے انکو معاشی حالات کا سامنا ہوتا حالانکہ یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ انکے وظائف مقرر کرتے تاکہ یہ حضرات دنیاوی ضرورتوں سے بے فکر ہوکر کما حقہ دین کی حفاظت و اشاعت کرسکیں، جس طرح ملک کی سرحدوں پر حملہ ہو تو پوری فوج کو سرحدات کی حفاظت پر لگا دیا جاتا ہے کہ دشمن اندر نہ آسکے اور اسکے لیے ضرورت پڑتی ہے تو عوام سے بھی چندہ کیا جاتا ہے، لیکن صد افسوس کہ آج مسلمانوں کی نظریاتی سرحدات پر آئے دن پورے زوروشور سے حملے ہورہے جسکا مقابلہ علماء اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے، ذمہ داران غفلت کا شکار ہوئے ایوانوں میں چائے کی چسکی لے رہے اور مزید ظلم یہ کہ غیر تو غیر کچھ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھے بھیڑیے بھی ہاتھ میں خنجر لیے پیچھے سے وار کرتے رہتے ہیں ان تمام حالات کے باوجود اس بات نے شہرت پائی کہ ان مولویوں نے پاکستان کے لیے کیا ہی کیا ہے یا یہ پاکستان کی ترقی کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں (خیر یہ ایک مستقل موضوع ہے "مولوی اور پاکستان" اللہ پاک نے توفیق دی تو اس پر لکھنے کی کوشش کروں گا) یا یہ کہ مولوی تو زکوٰۃ کی روٹی پر پلتے ہیں یا انکو یہ سکھایا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی روٹی ہی کھانی ہے وغیرہ وغیرہ. اگر موازنہ کیا جائے تو مسلمانوں کا جب عروج تھا تو لوگ اپنی خوشی سے اپنے صدقات، زکوٰۃ یا عطیات وغیرہ بیت المال میں جمع کراتے کہ اس سے معاشرے میں مالی استحکام آئے گا اور اس بیت المال سے اہل دین کو وظائف دیے جاتے جس پر کسی کی انگلی اٹھانے کی جرت نہیں ہوتی کہ یہ مولوی تو زکوٰۃ پر پلتے ہیں جب کہ آج سرکار وہ پیسہ جو مسلمانوں سے مسلم ریاست میں "ٹیکس" کے نام پر وصول کیا جاتا ہے جب ملک کی ترقی کے لیے ذمہ داران کو حوالے کرتی ہے تو نتائج کے بارے میں شاید وضاحت کی ضرورت نہیں بس اتنا کافی ہے کہ پیسا ترقی کے لیے اچک لیا جاتا ہے جبکہ ملک روز بروز نا ختم ہونے والے دلدل میں دھنسا چلا جارہا ہے جبکہ دوسی طرف اہل دین جنکو حکومتی مراعات بھی حاصل نہیں وہ جب اپنی ضروریات کو اہل خیر کی معاونت سے پورا کرکے دین کی سرحدوں پر سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں انکو مختلف قسم کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ سرفروش ان سے متاثر ہو کر پیچھےہٹنے والے نہیں کیونکہ ایک نبوی ٹرینگ لینے والا سپاہی اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن سرحد نہیں چھوڑ سکتا. 

 

اب اگر یہ مجاہدین (لغوی معنی میں) اپنی پوزیشن چھوڑ کر دنیا میں مال غنیمت لوٹنے آجائیں تو دین دشمنی رکھنے والے اب چاہے وہ "اپنے" ہوں یا غیر ایسے تیز و تند حملے کے لیے تیار بیٹھے ہیں کہ پوری امت اس لپیٹ میں آجائے لیکن یہ قرآن و حدیث کے زیر سایہ رہنے کی برکت ہے کہ اپنے تن، من، دھن کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا ہوا ہے جسکا کوئی خاطر خواہ دنیا میں معاوضہ بھی نہیں ملتا اسی کی برکت ہے کہ اگر پوری دنیا پر نظر ڈالی جائے تو خصوصاً پاکستان کے علماء کی محنت کا یہ نتیجہ رہا کہ دنیا کو پاکستان نے جو اہل علم دیے اسکی نظیر ملنا مشکل . 

 

اول تو یہ کہ یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ بطور مسلمان اور بحیثیت مسلم ریاست کے ان تمام حضرات کا وظیفہ مقرر کرے لیکن وائے افسوس کہ ایوانوں میں دین بیزاری کا طوفان عروج پر ہے جن سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے اب اگر اہل علم حضرات اپنی زندگی کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کریں تو اول تو یہ کہ بحیثیت مسلمان انکا حسب استطاعت ساتھ دیں تاکہ وہ دنیاوی ضروریات سے فارغ ہوکر ہماری دینی ضروریات کا خیال رکھ سکیں ورنہ کم از کم اس طرح کی باتیں کر کے کہ "مولوی بن گیا تو کھائے گا کہاں سے" یا "مولوی زکوٰۃ پر پلتے ہیں" فلاں فلاں، حوصلے پست مت کیا کریں ورنہ یقین جانیے اگر یہی مولوی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور دنیا کمانے کے دھندوں میں لگ گئے تو تباہی اخلاقیات، معاملات، عبادات، معاشرت غرض زندگی کے ہر شعبہ کو نگل لے گی اور لا دینیت اور الحاد کا طوفان سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دے گا.

 

اللہ پاک تمام مسلمانوں کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں، موجودہ اور آنے والے تمام فتنوں سے مامون فرمائیں اور اس راہ پر اپنی جان کی بازی لگانے والوں کی بال بال حفاظت و معاونت فرمائیں. (آمین ثم آمین)

 

علم کی شمع اندھیرا نہیں ہونے دیتی

اپنے کردار کو میلا نہیں ہونے دیتی

 

اپنے اسلاف کی تعلیم ہی کچھ ایسی ہے

عزم و ہمت کو جو پسپا نہیں ہونے دیتی

 

گردش خون رگ و پے میں ابھی جاری ہے

اک یہی سوچ نکما نہیں ہونے دیتی

 

خندہ پیشانی سے ہر ایک سے پیش آتا ہوں

میری عادت مجھے رسوا نہیں ہونے دیتی

 

نہ شکایت ہے تھکن کی نہ گلہ محنت کا

ذمہ داری مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتی

 

زندگی سے مری وابستہ ہیں یوں رنج و الم

یاد ان کی کبھی تنہا نہیں ہونے دیتی

 

جب سے حالات سے سمجھوتا کیا ہے جھنجھٹؔ

مفلسی میرا تماشا نہیں ہونے دیتی

 

رائیٹر:اسامہ عظیم کلیۃ الفنون جامعۃ الرشید

Tags