Blog | Funoonika
Funoonika

Funoonika & Jamia-Tur-Rasheed

طالبان کیا حکمت عملی اپنائیں گے؟

طالبان کیا حکمت عملی اپنائیں گے؟
وقت پوری دنیا کی نظریں طالبان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟۔ جب امریکہ پورے طمطراق سے افغانستان آیا تھا، اس وقت ہی ایک روسی ریٹائرڈ جنرل ’’وکٹر ینکوف‘‘ اپنے زخموں کو چاٹتے ہوئے خبردار کررہا تھا: ’’افغانستان میں تاریخ دُہرائی جارہی ہے۔ ہم بھی بہت بڑی فوج کے ساتھ داخل ہوئے تھے، مگر ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا‘‘ لیکن تکبر میں امریکہ نے افغانستان کے خلاف محاذ کھول دیا۔ نیٹو اور نان نیٹو ملاکر 42 طاقتور ممالک امریکی چھتری تلے جمع ہوگئے۔خود طاغوتی قوتوں کا کہنا تھا کہ افغانستان کے سارے لوگ ’’دہشت گرد‘‘ نہیں بلکہ صرف 36ہزار تھے۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ 42 ممالک اور صرف 36 ہزار افراد۔ وہ بھی ایسے جن کے پاس ہتھیار تھے نہ کسی ملک کی کھلی حمایت۔ایسی صورت میں کہاں کا مقابلہ، کیسا مقابلہ؟ مگر یہ افغان ہی تھے کہ ’’کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی۔ کچھ ہی عرصے میں ایسے منظر پیش کیے جن کا نظارہ چشمِ فلک نے کم ہی کیا ہوگا۔ چنانچہ ان قربانیوں کے نتیجے میں بہت جلد امریکہ ایک ایسی دلدل میں پھنس گیا جہاں سے نکلنا ممکن نہیں تھا، بالآخرقطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ طالبان مذاکرات ہوئے۔ معاہدے کے تحت امریکہ نے افغانستان خالی کردیا، چنانچہ اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان نے فتوحات شروع کردیں اور 15اگست 2021ء کو طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے کابل بھی فتح کرلیا۔ طالبان کی تاریخ ساز فتح کے بعد دنیا بھر میں بعض حلقے ماضی کے حوالوں سے خواتین اور انسانی حقوق کے ضمن میں اِن کے مستقبل کے رویے پر خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ تاہم ایک طرف طالبان قیادت اپنے مخالفین کو عام معافی دینے کے بعد مسلسل یقین دہانی کرا رہی ہے کہ اُن کی حکومت افغانستان میں خواتین سمیت تمام انسانی حقوق کی اسلام کے نظامِ عدل کے مطابق پاسداری کو یقینی بنائے گی اور دوسری طرف بیشتر عالمی مبصرین بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ طالبان نے پچھلے 20برس میں بہت کچھ سیکھا ہے لہٰذا قوی امید ہے کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ اس کا برملا اظہار طالبان کابل میں ہونے والی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی کر چکے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کا نظامِ حکومت کیا ہوتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ طالبان کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہے شریعت مطہرہ کا صحیح فہم، فقیہانہ بصیرت، حکیمانہ اقدامات اور مصلحت آمیز رویے۔ کاش! وہ استقرار پاتے ہی اس حوالے سے امت مسلمہ کی علمی قیادت کے علم و ہنر اورتجربہ سے استفادے پر آمادہ ہو جائیں، کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کی سرخروئی اور نیک نامی کو ﷲ تعالیٰ نے ایک بار پھر طالبان کے ہاتھ میں دیدیا ہے۔ طاغوتی اور استعماری طاقتیں طالبان حکومت کے پس منظر میں مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گی۔ موجودہ شکست صرف بطور ملک امریکہ کی شکست اور نقصان نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر مغربی تہذیب اور نظام زندگی کے متبادل علوم وحی پر مبنی نظریہ حیات کی مقبولیت اور بطور ایک متبادل ابھرنے کا سنہری موقع ہے۔ مغرب کسی صورت شریعت کے قانون کو اجتماعی نظام کے طور پر قبول نہیں کرے گا۔ افغان طالبان کی قبائلی روایات اپنی جگہ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے طرز عمل کو ان کی روایت کی بجائے اسلام کی ترجمانی سمجھا جائے گا۔ لہٰذا یہ صرف افغان مسئلہ نہیں پورے عالم اسلام کے وقار کا مسئلہ ہے۔حضرت مفتی محمد تقی عثمانی اس حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر دیگر علماء کرام کو ساتھ ملا کر اس حوالے سے کچھ پیش رفت فرمائیں تو اس وقت یہ اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی نصرت ہوگی۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس وقت سپر پاور کی اسٹرٹیجک پوزیشن دیدنی ہے۔ واشنگٹن یہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہا کہ چین کے معاشی چیلنج کا سامنا کیا جائے یا طالبان کی فتح کے باعث اسلامی ریڈیکل ازم کا۔ چائنا کے خطرے سے نمٹنے کیلئے طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھے جاتے ہیں تو اسلام کو بطور اجتماعی نظام یعنی قانون شریعت کو گوارا کرنا ہوگا۔ اگر اپنی تاریخی اسلام اور مسلم دشمنی کی پالیسی جاری رکھی جاتی ہے اور طالبان پر انسانی حقوق کے ڈھکوسلے کی بنیاد پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو طالبان کے چین کی جانب ممکنہ جھکاؤ کی سبب خطے میں چینی اثر ورسوخ بڑھنے سے چین کا معاشی چیلنج امریکہ کے سامنے آکھڑا ہوگا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان جیسی قوت کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے ہوئے چائنا کو دباؤ میں رکھنا اولین ترجیح ہوگی۔ اس صورت میں ماضی کی طرح طالبان پر عالمی پابندیوں کی راہ ہموار نہیں کی جاسکے گی۔دیکھئے! فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ اور پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ 
از قلم : مولانا انور غازی

Tags

0 Comments

Leave a Comment