Blog | Funoonika
Funoonika

Funoonika & Jamia-Tur-Rasheed

لگن ، دھن اور شوق

لگن ، دھن اور شوق

سیم والٹن سے تو سبھی واقف ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی وال مارٹ بنانے والا امریکی بزنس مین۔ اس کے صرف ملازمین کی تعداد 22 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس کمپنی نے والٹن کو امریکا کا سب سے امیر شخص بھی بنایا۔ اس کے حالات زندگی میں ایک عجیب بات لکھی ہے۔ وہ سیکھنے کا شوقین تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ برازیل کے تاجروں نے فیصلہ کیا کہ امریکی کمپنی مالکان سے رابطہ کریں۔ انہوں نے بڑی مشکل سے امریکی تاجروں کے پتے تلاش کیے۔

ان کے پتوں پر خط بھیج دیے، جن میں ان سے ملاقات کا وقت مانگا تھا۔ حیرت انگیز طور پر سبھی امریکی تاجروں نے خط کا جواب ہی نہیں دیا یا ملاقات سے انکار کردیا۔ صرف ایک تاجر نے اس خط کا جواب مثبت انداز میں دیا وہ شخص: سیم والٹن ہی تھا۔ والٹن نے انہیں ارکنساس میں واقع اپنے گھر بلایا۔ ان کی ضیافت کی، بزنس پر گفت و شنید کی۔ یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور پھر والٹن سے برازیلی تاجروں کو رابطہ رہنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد سیم والٹن نے فیصلہ کیا کہ اسے بھی برازیل جانا چاہیے اور وہاں کے تجارتی حالات کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ برازیل جاکر دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ والٹن اس کے بعد شہر کی سیر کو نکل کھڑا ہوا۔ اس نے برازیل کی ایک سپر مارکیٹ دیکھی تو اس میں گھس گیا۔ چیزیں رکھنے کا سلیقہ، شیلف کے درمیان گزرنے کا رستہ دیکھا۔

والٹن نے اپنی جیب سے فیتہ نکالا اور ان چیزوں کو ناپنے لگا۔ وہ دو شیلف کے درمیان گزرنے کا رستہ ناپ رہا تھا کہ اسٹور عملے کی نظر میں آگیا۔ انہوں نے سیم والٹن کو پکڑا اور پولیس کو بلالیا۔ پولیس کو کہا کہ یہ شخص جاسوس معلوم ہوتا ہے۔ برازیلی پولیس نے اسے پکڑا اور جیل میں بند کردیا۔ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کا مالک نے ایک رات برازیل کی جیل میں گزاری۔ والٹن کے میزبان افراد کو خبر ہوئی، ان کے پہنچنے کے بعد والٹن کو جیل سے رہائی ملی۔ لیکن آپ والٹن کا جذبہ دیکھیے کہ اس نے یہ تک نہیں سوچا کہ میں امریکا کا امیر ترین شخص ہوں، میرے اسٹور جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس نے سیکھنے میں کوئی شرم، کوئی عار اور کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔

استاذ نے ایک بار فرمایا تھا: کام کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں: ایک روایتی انداز میں کام کرنا۔ وقت دیکھ کر، فرصت دیکھ کر اور درکار وسائل سامنے رکھ کر۔ کام کا اگلا درجہ یہ ہے کہ اسے اپنے اوپر سوار کرلیں۔ ہروقت، ہرجگہ، ہرلمحہ اس کے بارے میں سوچتے رہیں۔ کام کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ کام پر سوار ہوجائیں۔ اس کے لیے پتہ پانی کردیں اور جگر خون کردیں۔ اس میں اتنی اجتہادی مہارت پیدا کرلیں کہ جیسے چاہیں کرلیں۔ وہ کرنے کے نت نئے، انوکھے اور البیلے طریقے متعارف کروادیں۔

گئے دنوں کی بات ہے امریکا پلٹ ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی سے پوچھا تھا: یورپ و امریکا کے شہ دماغوں کے ساتھ کام کرکے کیا پتہ چلا کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ وہ کیوں دنیا پر حکمران ہیں؟ کہنے لگے: وہ سیکھنے کے بھوکے ہیں۔ نئی بات، نئی چیز، نیا آئیڈیا اور نیا رخ، انہیں جہاں کہیں سے ملتے ہیں، اسے فورا اچک لیتے ہیں۔ حکمت کی بات تو مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ بس اصل چیز اس کا شوق پیدا کرنے، لگن سے کام کرنے اور دھن سوار کرنے کی ہے۔ دنیا کی جو قوم ایسا کرنے لگے گی، دنیا پر حکمرانی کرے گی۔

از قلم : مولانا عبدالمنعم فائز

0 Comments

Leave a Comment